Saturday, 16 April 2016

جھولے

"ابا ایسٹر پہ نئے کپڑے بنوانے ہیں"
"ابا جھولے پر بیٹھنا ہے"

"پر بِٹیا رانی ایسٹر تو عیسائیوں کا تہوار ہے, مسلمانوں کا نہیں"

"ابا, ہم انسان پہلے اور عیسائی مسلمان بعد میں ہیں"

ابا لاجواب ہو کے چپ کر گیا
اسکا سینہ اپنی چودہ سالہ بیٹی کی سوچ پر فخر سے پھُول گیا

مریم آٹھویں جماعت کی ایک بہت ہونہار طالبہ ہے, بہت زہین اور حساس طبیعت کی مالکہ
مریم اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے, ماں باپ کی آنکھوں کا نور, انکے مستقبل کا خواب
مریم اپنے والدین کا خواب پورا کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہے
اسکی سوچ اپنے آس پاس کے لوگوں سے یکسر مختلف ہے
اسکی اس سوچ کا اثر واضح طور پہ اسکی ماں پر دیکھا جا سکتا ہے
ایک دقیانوسی تصورات کی حامل مسلمان ہونے کے باوجود نہ صرف وہ مریم کو ایسٹر کیلئے نیا جوڑا بنا کے دیتی ہے بلکہ اسے جھولوں پہ جانے کی اجازت بھی دے دیتی ہے
مریم کا خواب بھی اپنے آس پاس کے ماحول کی ذہنی پسماندگی کو تبدیل کرنا ہے
اتنی سی عمر میں مریم نے قران پاک بمعہ ترجمہ اور احادیث کا مطالعہ کر رکھا ہے
وہ مسلمانوں کی منافقت پہ کُڑھتی ہے
انکا جھوٹ, بےایمانی دوغلاپن ہوس لالچ جہاد کے نام پہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنا اسے سوچنے پہ مجبور کر دیتا ہے کہ کیا کلمہ طیبہ کا ورد ہی مسلمان کی سند حاصل کرنے کیلئے کافی ہے کہ کلمہ طیبہ پہ یقین اور عمل کرنا بھی ضروری ہے

آج ایسٹر ہے, اتوار کی چھٹی بھی ہے
مریم صبح سے شام کا انتظار کر رہی ہے, اسکے ابا نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اسے پارک میں لے کر جائیں گے
مریم نہا دھو کے اماں کا بنوایا گلابی رنگ کا جوڑا پہن کے تیار ہوتی ہے
سر پہ گلابی رنگ کا بینڈ کسی شہزادی کا تاج معلوم ہو رہا ہے
اسکےکھلتے رنگ پہ گلابی سوٹ اپنا رنگ چھوڑ رہا ہے
ماں کی آنکھیں بیٹی کی بلائیں لے رہی ہیں جبکہ ہونٹ مسلسل "ماشاءاللّٰہ" کا ورد کر رہے ہیں
شام کے 6 بجے ابا مریم کو اپنے رکشہ پر پارک لے کے جاتے ہیں
ماں دعاؤں کے حصار میں باپ بیٹی کو رخصت کرتی ہے
پارک میں بہت رش ہے, ایسٹر کی وجہ عیسائی برادری کی بھی بڑی تعداد موجود ہے
ایک بھیڑ ہے بس, عیسائی مسلمان نہیں
مریم ایک ایک جھولے میں چار چار بار چڑھ کے لطف اندوز ہو رہی ہے
"بٹیا کیا کھاؤ گی؟ میں تمہارے لیئے کینٹین سے لے آؤں"
ابا نے شور کی وجہ سےچیختے ہوئے پوچھا
"ابا, میں برگر اور کوک لوں گی"
جھولے پہ بیٹھی مریم نے گلا پھاڑ کے جواب دیا اور کھلکھلا کے ہنس پڑی
ابا اسکی گلابی ہوتی رنگت اور کھلے ہوئے چہرے کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کر کے برگر اور بوتل لینے چلا جاتا ہے
کینٹین پہ بہت بھیڑ ہے, ابا اپنی باری کے انتظار میں کھڑا ہے کہ اچانک اسکے کانوں میں گونجتی مریم کی کھلکھلاتی ہنسی کی جگہ ایک انتہائی اونچی کان پھاڑتی آواز نے لے لی
اسکی آنکھیں جو ابھی مریم کے معصوم چہرے کا لطف ہی لے رہی تھیں کہ وہ دھواں اور اڑتے ہوئے انسانی چھیتڑوں کا نظارہ کرنے لگیں
ابا اپنی جگہ پہ ساکت ہو گیا جیسے اسے کسی نے جادو کر کے پتھر کا بنا دیا ہے
مریم کے چہرے کا رنگ گلابی سے بدل کے لال سرخ ہو چکا ہے جیسے وہ ابھی ابھی ہولی کھیل کے ہٹی ہے
سرخ رنگ کی ہولی
"خون کی ہولی"
مریم کی فکر و سوچ کے مطابق ایک مسلمان پھٹ چکا ہے

ماں بیٹی سے اداس ہو کے جلد آنے کا کہنے کیلئے اسے فون کرتی ہے
فون مریم کے بےجان جسم کے پاس پڑا ہے
اس پہ محبت کی چاشنی میں گھلے الفاظ "امی جان" بھی اب اسے اٹھانے سے قاصر ہیں
#بِیاعلی


Twitter: @biyaali57


1 comment: