ایک دفعہ کا زکر ہے دور انجان دیس میں ایک شہزادے کی حکومت تھی.
لمبا قد, اس عمر میں بھی مضبوط کاٹھی بتاتی تھی کہ عمارت عظیم
تھی_عمر کے اس پڑاؤ پہ بھی وہ صنفِ نازک کا دل آسانی سے جیتنے کی صلاحیت رکھتا تھا
اس میں کچھ اسکی شخصیت کا ہاتھ بھی تھا اور زیادہ تجربہ کہ شہزادہ دل
پھینک واقع ہوا تھا
سلطنت کے روزانہ کے معمولات سے تھک کے شہزادے نے شکار پہ جانے کا
ارادہ کیا
معمول کے خلاف اس مرتبہ وہ اپنے محافظوں کے بِنا تنہا شکار پہ نکل پڑا
شاید اس میں بھی قدرت کی کوئی مصلحت تھی
سارا دن گھوڑا دورانے کے باوجود شہزادے کو شکار نہ ملا, وہ بُری طرح
تھک چکا تھا کہ دور اسے روشنی کی معمولی سی لو نظر آئی
شاید اسکا شکار وہاں چھپا بیٹھا تھا
وہ خراماں خراماں اپنے گھوڑے پہ سوار اس لو کے تعاقب میں چل پڑا
روشنی کی لو اسے ایک کچے مکان تک لے گئی, روشنی اس مکان کے باہر لگی
مشعل سے پھوٹ رہی تھی
شہزادہ گھوڑے سے اترا, لکڑی کے دروازے پہ دستک دی
دو تین مرتبہ دستک دینے کے بعد دروازہ چڑڑڑ کی آواز کے ساتھ کھلا
ایک خاتون دروازے پہ نمودار ہوئی, خاتون لگ بھگ تیس سال کی ہو گی
خاتون نے سوال کرنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ اندر سے آواز آئی
"پاشی او پاشی, اتنی رات گئے کون ہے دروازے پہ؟"
"اماں, کوئی اجنبی ہے, پوچھ کے بتاتی ہوں"
پاشی ایک درمیانے قد کی قدرے صحتمند خاتون تھی, گورا رنگ جازبیت لئے
متناسب نین نقش کی مالکہ
"جی, آپکو کس سے ملنا ہے؟"
"میں ایک مسافر ہوں, راستہ بھول گیا ہوں, رات کے اس پہر راستہ
تلاش کرنا مشکل ہے, بھوکا پیاسا بھی ہوں. کچھ عنایت ہو سکتی ہے؟"
شہزادے کے منہ سے بلاارادہ جھوٹ نکلتا گیا
کیوں؟ یہ شہزادے کو بھی معلوم نہ تھا
پاشی اماں کے پاس آئی اور اسے شہزادے کے بارے بتایا
اماں سدا کی نرم دل فوراً مدد کرنے پہ راضی ہو گئی, پاشی نے شہزادے
کو اندد بلایا ایک خالی چارپائی پہ بیٹھنے کو کہا اور خود کچھ ہی دور دھرے چولہے
پہ اسکے لیئے روٹی بنانے لگی_
شہزادہ اور اماں گفتگو میں مشغول ہو گئے شہزادہ بات تو اماں سے کر
رہا تھا پر اسکا سارا دھیان پاشی کیطرف تھا,پتہ نہیں اسے پاشی میں کیا شے بھا گئی
تھی کہ وہ چاہ کے بھی اس سے نظر نہیں ہٹا پا رہا تھا, اماں بیچاری دیکھنے سے معزور
شہزادے کی یہ چوری نہ پکڑ سکی
البتہ پاشی اپنے چہرے پہ دو گھورتی آنکھوں کی چبھن واضح طور پہ محسوس
کر سکتی تھی
شہزادے نے کھانا کھایا اس دوران وہ پاشی کو ایک گھاک شکاری
کیطرح اپنی لچھےدار باتوں میں پھانستا گیا
پاشی ایک معصوم دل و دماغ کی مالکہ جس کا خاوند دوسرے دیس رزق
کی تلاش میں نکلا, رزق تو معلوم نہیں ملا کہ نہیں البتہ وہ کسی حسینہ کی زلفوں کا
اسیر ہو کے وہاں کا ہو کے رہ گیا مگر پاشی کو ہر ماہ خرچہ بھیجنا نہ بھولتا تھا
جیسے پاشی کے جسم کے ساتھ صرف پیٹ لگا ہو, اس میں دل نام کی کوئی چیز
نہ پائی جاتی ہو
شہزادہ آہستہ آہستہ پاشی کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتا جا رہا تھا
پاشی عجب گو مگو کی کیفیت میں تھی, وہ شہزادے کی محبت میں گرفتار بھی
ہو رہی تھی اور اسکا ضمیر اسکو ملامت بھی کرتا کہ اسکی شادی ہو چکی ہے ایک پردیسی
سے جس کا وجود پچھلے دس سال سے صرف اسکے نام کے آگے شوہر کی خانہ پُری کی حد تک تھا
بالآخر وہی ہوا جس کا شہزادے کو انتظار تھا, پاشی اسکی محبت میں بُری
طرح گرفتار ہو گئی اس نے خود کو شہزادے کے سپرد کر دیا..
شہزادہ خوشی سے سرشار ہو گیا اسکی مردانگی جیت گئی تھی اسکی انا کیسے
برداشت کر سکتی تھی کہ کوئی اسکو انکار کرے!!
دوسری طرف خاوند کی ٹھکرائی ہوئی معصوم پاشی شہزادے سے عشق کر بیٹھی
شاید اسلئے کہ اس نے شہزادے کی طرح گھاٹ گھاٹ کا پانی نہیں پی رکھا تھا
پاشی نے ساری زندگی خود کو بہت سینچ سینچ کے رکھا مگر شہزادے کے آگے
مات کھا گئی
شہزادہ پاشی کے جسم اور جزبات کے ساتھ کھیلنے میں خوب مگن تھا کہ
اچانک اسے اپنی سلطنت اور محبوبہ کی یاد ستانے لگی, وہ محبوبہ جس کی محبت
میں وہ گزشتہ بیس سالوں سے گرفتار تھا
شہزادہ چلا گیا, پاشی کو یادوں کا خزانہ دے کے, اسکے لیئے تڑپنے کا
سامان کر کے, اسکے ضمیر پہ منوں بوجھ لاد کے..
اور پاشی کی ہرصبح کا آغاز جنگ کے بِگل سے ہوتا ہے, ایک نہ ختم ہونے
والی پاشی اور ضمیر میں ہونے والی جنگ, مگر ہر بار جیت اسکے "عشق" کی ہی
ہوتی ہے
نوٹ: یاد رہے کہ اس جدید دور میں جہاں قندیل بلوچ کا وجود عورت کے
بھیانک روپ کی صورت موجود ہے وہیں پاشی جیسا وجود بھی سانس لے رہا ہے جسکے لیئے
اسکا پہلا عشق ہی آخری ہے
No comments:
Post a Comment