"کوئی کام مِلا؟"
"نہیں"
"اب کیا ہو گا؟ بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کا وقت آ گیا, پپو کی دو
مہینے کی فیس نہیں گئی, راشن بھی صرف اکو دن کا ہی رہ گیا"
" اللّٰہ مالک
ہے بھلیئے لوکے, کوشش تو کر رہیا, روزگار پیکج واسطے بھی درخواست دے دی ہے_ امید
تو ہے کہ شنوائی ہو جاوے گی"
"اللّٰہ کرے پپو کے ابا"
نزیرا پاکستان میں غربت کی چکی میں پِسنے والا ایک عام انسان ہے
دو بچوں کا باپ!
ایک جوانی کی دھلیز پار کرتی بیٹی،
دوسرا آنکھوں میں تابناک مستقبل کے خواب سجائے بیٹا
اور ان دونوں کی خوشحال زندگی کے لئے دستِ دعا پھیلائے ہوئے نزیر اور
اسکی گھر والی شمیم
نزیرے کے باپ نے بھی اپنے پُتر کیلئے آنکھوں میں سپنے سجائے تھے,
محنت مزدوری کر کے نزیرے کو پڑھایا لکھایا_
نزیر ایک قابل طالب علم تھا, اپنے باپ کی خواہش "پڑھا لکھا
افسر" کو پورا کرنے کیلئے دن رات ایک کرنے والا طالب علم,
اور جو چودہ جماعتیں اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کرنے میں کامیاب بھی ہو
گیا
بھولا باپ سمجھا کہ اسکا خواب پورا ہو گیا, وہ بھلا کیا جانتا کہ
اسکے وطن میں اچھی زندگی کے خواب زیادہ تر خواب ہی رہ جاتے ہیں
آخرکار نزیر جوتیاں گھسانے کے بعد ایک سرکاری اسکول میں چپڑاسی کی
نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا
جبکہ اسکا غریب باپ بیٹے کو کرسی میز کے پیچھے بیٹھا دیکھنے کا خواب
آنکھوں میں سجائے ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند گیا
نزیر کی زندگی کی گاڑی گھسٹتی رہی,شادی اور پھر دو بچے نزیرے کی
زندگی کا رخ موڑ گئے
اپنے باپ کی طرح نزیرے سے بھی بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی, ماضی سے سبق
سیکھنے کی بجائے اپنی بیٹی کیلئے "شہزادے" اور بیٹے کیلئے "کرسی
میز" کی خوش فہمی پالنے کی غلطی..
"حکومت کا اداروں کی نجکاری کا فیصلہ"
یہ خبر جیسے تیسے زندگی کی گاڑی گھسیٹتے نزیرے پر قیامت کی مانند گِری
اور وہ ہی ہوا جسکا ڈر تھا, اسکے سکول کی بھی نجکاری ہو گئی, نزیر کی
نوکری بھی ہاتھ سے گئی_اسکول کے خریدار نے سفارش پر نیا عملہ تعنیات کر لیا
ایک مرتبہ پھر نزیرے کی جوتیاں گھسنیں لگیں مگر اب کے اس میں جوانی
والا جوش و ولولہ کہاں سے آتا؟ زمانے کی گرم سرد سے لڑتے لڑتے نزیرے کا دم خم
دھندھلا چکا تھا
"ابا بہت بھوک لگی ہے"
یہ الفاظ تھے کہ پگھلا ہوا سیسہ جو نزیر کے کانوں میں پپو نے انڈیلے
عادت کے مطابق میں ناشتے کے ساتھ اخبار کا مطالعہ کر رہی ہوں, اچانک
میری نظروں کے سامنے یہ خبر لہرا گئی
"ملتان: محمد نزیر نامی شخص نے بھوک اور غربت سے تنگ آ کر اپنے
بیوی بچوں کو مار کر خودکشی کر لی"
میری تواتر سے برستی آنکھیں اس خبر پہ جم گئیں,ایک سوال ہتھوڑے کی
مانند میرے ذہن پہ برسنے لگا "محمد نزیر نے اپنے خاندان اور خود کو کس
سے مُکتی دلوائی؟
اس دنیا سے
یا
اس کرپٹ, بےضعمیر, بےحس حکومتی اشرافیہ اور انکے رائج کردہ سسٹم سے؟"
#بِیاعلی
Twitter:
@biyaali57
No comments:
Post a Comment