Saturday, 16 April 2016

طوائف

"آآآہ"
مہرجہاں درد سے کراہتے ہوئے,
دردِزدہ کی تکلیف برداشت کرتے اسکے نیلے پڑتے ہونٹوں سے سرگوشیاں ابھر رہی ہیں
"اے میرے پروردگار, مجھے بیٹا دے"
جبکہ دوسرے کمرے میں اسکا شوہر اور باپ ہاتھ بلند کیئے اللّٰہ سے بیٹی مانگ رہے ہیں
چاند چہرے جیسی بیٹی
حیران ہو گئے نا؟
یہ تو سب الٹ نہیں ہو گیا؟

جب مہرجہاں نے اس دنیا میں قدم رکھا تو اسکے باپ نور بخش نے اسکی ماں زرینہ کو بہت مارا اس بات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے کہ زرینہ کچھ لمحے پہلے ہی ولادت جیسی جان لیوا کسوٹی سے گزری ہے
نور بخش کو بیٹا چاہیئے تھا

وقت گزرتا گیا, مہرجہاں جیسے تیسے جوانی کی منزل کو پہنچ گئی, اسکے گڑیوں سے کھیلنے کے دن اس سے بےدردی سے چھین لیئے گئے
اسکےبچپن کے وہ قیمتی پل اپنی ماں کےساتھ دوسروں کے جوٹھے برتن مانجھنے میں گزر
گئے
ماہ و سال گزرنے لگے, مہرجہاں نے سولہویں سال میں قدم رکھ لیا..
نئی امنگیں نئی خواہشیں  مہرجہاں کے اندر سر ابھارنے لگیں,اسکا بننے سنورنے کو دل چاہنے لگا
اپنی گِنی چُنی سہیلیوں سے سنی کہانیاں اسکے کچے ذہن میں گونجنے لگیں اور اس معصوم نے ایک گھبرو جوان کا تخیل اپنے ذہن میں سجا لیا
ایک دن اسی جذبے کے تحت اس نے نہا دھو کے, اپنی مالکن سے مِلا جوڑا زیب تن کیا اپنے لمبے گھنے بالوں کی چوٹی بنائی اور مالکن کی بیٹی کی دان کی ہوئی سُرخی ہونٹوں پہ سجائی
اسکی ماں بیٹی کو اس روپ میں نظر بھر کے دیکھنے سے بھی گریزاں تھی کہ کہیں بیٹی کو نظر نہ لگ جائے اور گھبرائی ہوئی بھی کہ اسکے باپ نے دیکھ لیا تو بیٹی کو دھُن کے رکھ دے گا
کیا اٹھان تھی مہرجہاں کی, یہ لمبا قد کسی ناگن کیطرح بل کھاتی کالی گھنی چوٹی, کھِلتا ہوا گندمی رنگ, ستواں ناک جس پہ ایک کِیل سجا ہوا تھا بھرے بھرے ہونٹ اور اسکے اوپر اسکی نظر اتارتا ایک کالا تِل

اپنے خوابوں میں مگن مہرجہاں کو معلوم ہی نہیں پڑا کہ کب اسکا باپ گھر کے اندر داخل ہوا اور کب سے اسکے سر پہ کھڑا گہری سوچ میں ڈوبا اسے گھوری جا رہا ہے
خوف سے کانپتی ماں کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب محمد بخش ایک لفظ منہ سے نکالے بنا ایک گہری سوچ چہرے پہ لیئے گھر سے باہر نکل گیا
ایک آدھ گھنٹے بعد محمد بخش بمعہ ایک گھاک صورت عورت اور ایک مشہور بدمعاش طیفے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا
یہ دیکھ کے ماں کا دل مانو اچھل کے منہ کو آ گیا
اسکا ماتھا ٹھنکا
"میں مہرجہاں کا ویاہ طیفے کے ساتھ کر رہا ہوں, مولوی صاحب اور گواہ بھی آتے ہی ہونگے بس"
مہرجہاں اور ماں کے کانوں  کے پاس جیسے کسی نے بم پھوڑا
ماں نے خاوند کے سامنے رونا اور گڑگڑانا شروع کر دیا, طیفے نے اسے چوٹی سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوئے دوسرے کمرے میں بند کر دیا جبکہ مہرجہاں ہنوز سکتے کے عالم میں جوں کی توں بُت بنی کھڑی رہی
جیسے اسکے حواس کسی نے چھین لیئے ہوں
نکاح شروع ہو گیا, ماں دروازہ پیٹتی دھائیاں دیتی رہی, مہرجہاں ایک زندہ لاش کیطرح اشاروں پہ ناچتی رہی

 قیامتِ کُبریٰ تو مہرجہاں پہ تب ٹوٹی جب وہ رخصت ہو کے اپنے سسرال پہنچی
تبلے کی تھاپ پہ تھڑکتے گنگرو  پہنے پاؤں
جابجا کھڑکیوں سے حسرت و یاس کی تصویر بنی جھانکتی ہوئی بنتِ حوا
مہرجہاں کو اسکی منزل کا پتہ دینے کیلئے کافی تھیں_

"آآآہ"
مہرجہاں کی آہ میں کیا کیا نہیں تھا
کرب, اذیت, دکھ تکلیف
"بس بٹیا برداشت کرو دو منٹ اور"
"اماں, تجھے اللّٰہ کا واسطہ دعا  کرو مجھے بیٹا ہو"
دائی نے کچھ خوف اور کچھ حیرت سے مہرو کی طرف دیکھا کہ وہ جانتی تھی کہ ایک "کوٹھے" میں بیٹے کی پیدائش کا نتیجہ کتنا گھناؤنا ہو سکتا ہے
جبکہ مہرجہاں کے ذہن میں اسکے ماضی کا وہ تاریک دن گھوم رہا تھا جب اسکے نام نہاد خاوند نےاسے بنا سنوار کے ایک سیٹھ کے سامنے پیش کیا تھا پانچ ہزار کے عوض,اسکے ذہن میں روتی بِلکتی مہرجہاں کی فلم چل رہی تھی جو اپنے شوہر سے رحم کی بھیک مانگتے مانگتے ایک دم خاموش ہو گئی تھی
"حرامزادی, نخرے دکھاتی ہے؟
تیرے باپ نے اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے تجھے بیچا ہے ایک لاکھ میں, اب وہ ایک لاکھ تیرا باپ پورا کرے گا کیا؟"
اور مہرجہاں یکدم چپ کر گئی, اسکی زبان ہمیشہ کیلئے تالو سے لگ گئی

"اُوایں اُوایں"
مہرو کی سانس جیسے گلے میں ہی کہیں اٹک گئی
"مہرجہاں, مہرجہاں وے کرماں جلی, غضب ہو گیا تیرے بیٹا ہوا ہے" دائی نے پیلے پڑتے رنگ اور کانپتی آواز سے مہرو کو خبر سنائی, طیفے کے غصے کا سوچ کے ہی اس کی روح فنا ہو رہی تھی
دائی نے تاسف بھری نگاہ مہرجہاں پہ ڈالی پر اسکی آنکھوں نے ایک عجیب ہی منظر دیکھا مہرجہاں کے چہرے پہ پریشانی اور خوف کی رمک تک نہیں تھی سکون اور اطمنان اس کے چہرے سے چھلک رہا تھا, اسکے نیلے پڑے ہونٹوں پہ گلابی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور وہ بُڑبڑا رہی تھی
"میرے مولا تیرا شکر, ایک طوائف پیدا ہونے سے بچ گئی"
#بِیاعلی


Twitter: @biyaali57


1 comment:

  1. Excellent and very heart rending story but depicts dark side of our society.

    ReplyDelete