Thursday, 28 April 2016

"گورکھ دھندہ"

میاں نوازشریف کی غربت کی دکھ بھری داستان تو میں بیان کر چکی ہوں
قوم سے خطاب میں انہوں نے اپنی مخدوش مالی حالت کا زکر بہت دردناک لہجے میں کیا تھا
انکے بلین ٹریلین کے اثاثے انکے ہوتے ہوئے بھی انکے نہیں, یہ اثاثے انکی اولاد نے 13 سال کی عمر سے دن رات ایک کر کے بنائے
نوازشریف کی داستان سنتے ہوئے میرے ذہن میں ریشماں, ببو برال جیسے عظیم فنکار آ گئے جنہوں نے انتہائی کسمپرسی میں اپنی زندگی کے دن پورے کیئے
میرا دل میاں صاحب کی داستانِ غم سن کے بھر آیا
ایک آنکھ سے  آنسو بھی ٹپک پڑا
صرف ایک آنکھ؟
ہاں نا, دوسری آنکھ میاں صاحب کی صحت اور انکے ہشاش بشاش چہرے کی زیارت کر رہی تھی جو کہ ببوبرال اور ریشماں کے چہروں سے میل کھا رہے تھے
انکا چہرہ کسمپرسی تو نہیں البتہ خوش خوراکی کی کہانی بیان کر رہا تھا
شاید میاں صاحب عظیم نہیں ہیں 😊
خیر اب آگے بڑھتے ہیں, میاں صاحب کے قوم سے دوسرے خطاب کا متن کچھ یوں تھا
"اسکا حساب کون دے گا"
یعنی کہ خود عوام کی عدالت میں تو کھڑے ہونا نہیں الٹا دوسروں پہ پوپلا منہ بنا کر الزام تراشی کرو, خود کو معصوم اور اگلے کو دس نمبری ثابت کرو؟

اور میاں صاحب کیلئے "Most Wanted" صرف عمران خان ہیں, جبکہ باقی سیاستدان اور میاں صاحب ایک کلمے پر ہی ایمان رکھتے ہیں
"مُک مُکا"

لو جی دوسرا خطاب بھی ہو گیا وہ بھی ایک ماہ میں؟
جبکہ میاں صاحب تو عوام کو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے؟
ارے بھئی,یہ وقت کا تقاضا جو ٹہرا
آخر انکی اور انکے چوزوں کی ساکھ کا سوال تھا (ویسے میاں صاحب عزت کے متضاد پر یقین رکھتے ہیں)
خطاب کے بعد عوام کا دس فیصد ابھی بھی میاں صاحب کو دودھ کا دھلا ماننے سے انکاری تھا
کوئی تیس فیصد پٹواری ہوں گے جنکا کام دن رات میاں صاحب کے نام کی مالا جپنا ہے اور باقی کے ساٹھ فیصد تن سے ننگے پیٹ سے بھوکے عوام سڑکیں بسیں دیکھ کر ہی خوش ہو جانے والے ہیں

ہاں تو میں کہ رہی تھی کہ دس فیصد باشعور عوام نے میاں صاحب سے حساب مانگنا بند نہیں کیا
اسکا توڑ میاں صاحب کی جانشیں مریم نواز نے پرویز رشید اور عابد شُرلی کے منہ پہ لگا چھینکا اتار کے کیا جو کہ ان دونوں کے خود کیلئے مزید زلت کا باعث بنا
پھر دختراول نے اپنی اعلیٰ تعلیم (یاد رہے دختراول نے PHD بچپن میں ہی کر لی تھا) کو بروئےکار لاتے ہوئے ایک ترکیب ڈھونڈی
اس مرتبہ انکا ہدف جہانگیرترین ٹہرے

پٹوار خانے میں اچانک شور اٹھا کہ ترین صاحب نے قرضے معاف کروائے
اس بات پہ سچائی کی مُہر ثبت کرنے کیلئے مریم بی بی نے اسٹیٹ بینک کا ترین صاحب کو جھوٹا خط میڈیا پہ ڈال دیا
انکی اس اسکیم کی سچائی بھی جلد ہی سامنے آ گئی اور ناکامی ایک مرتبہ پھر ن لیگ کا مقدر ٹہری

ایک سہانی صبح شور اٹھا کہ ICIJ نے میاں نوازشریف کا نام غلطی سے پانامالیکس میں ڈال دیا, پٹواریوں کی تو جانو عید ہو گئی, خوب اچھل اچھل کے میاں صاحب کی شرافت کے ترانے پڑھنے لگے
اور دوسری طرف میاں صاحب کی بزنس میں ماہر اولاد کے دماغ میں ICIJ پر ہرجانے کا دعویٰ کر کے ٹھیک ٹھاک دولت کمانے کا خیال تک نہ آیا؟
یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ اگلے دن ہی ICIJ نے اس خبر کو جھوٹا قرار دے دیا
انکے مطابق انہوں نے یہ کلیئر کیا کہ نوازشریف کا نام پانامالیکس میں انکی اولاد کے حوالے سے آیا

اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اولاد کے پاس پیسہ کہاں سے آیا سرمایہ کاری کیلئے؟
کیونکہ بقول میاں صاحب یہ بڑے بڑے ایمپائرز اور فیکٹریاں انکی اولاد کی انتھک محنت کا نتیجہ ہیں, انکے پاس تو اپنا گھر تک نہیں, جدی پُشتی امیر بھی نہیں ہیں اگر ہیں تو انکی اولاد باپ کو کیوں پال رہی؟
میاں صاحب بچوں سے بھی انکاری نہیں, بچے بھی انکے ہی ہیں..
اف! کیا جلیبی کی طرح سیدھا خاندان ہے 😡
یعنی کہ تم اک "گورکھ دھندہ" ہو میاں؟

مگر اتنی سمجھ میں بھی رکھتی ہوں کہ ناک چاہے دائیں ہاتھ سے پکڑو یا بائیں ہاتھ سے, پکڑی ناک ہی جاتی ہے
😊😊

#بِیاعلی

Friday, 22 April 2016

"مایوسی کفر ہے"

"مایوسی کفر ہے"
مگر میں مایوس ہو گئی ہوں!!
ہاں میں مایوس ہو گئی تھی!!

پاکستانی قوم کی بےحسی جھوٹ منافقت کے سبب

میں مایوس ہو گئی تھی اس قوم کے بچوں کے روشن مستقبل سے..

میں مایوس ہو گئی تھی صحافیوں کے قلم کی بولی لگتے دیکھ کے
ایک طوائف کے بکنے سے ایک جسم بکتا ہے جبکہ ایک قلم کی بولی ساری قوم کو بیچ دیتی ہے
میں اس بکاؤ معزز پیشے سے سچ کی امید کیسے رکھتی؟
سو میں مایوس ہو گئی

اپنے وطن کی عدلیہ نے مجھے مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دکھیل دیا
میں دیکھ رہی ہوں یہاں صحافت کے ساتھ ساتھ انصاف بھی "فار سیل" ہے
جہاں میرے ذہن کے پردے پر کراچی کے مقتول طالب علم شاہزیب خان کی کفن میں لپٹی تصویر ابھری
وہاں ہی اسکا قاتل شاہ رخ  جتوئی رہائی پاتا ہے اور وکٹری کے نشان بناتا اپنے محافظوں کے جھرمٹ میں ایک قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر فراٹے بھرتا گزر رہا ہے
شاہ رخ کے باپ کے پاس اثررسوخ اور دولت ہے
جبکہ شاہزیب کا ڈی ایس پی باپ نہ صرف عام آدمی کا رکھوالا ہے بلکہ اپنی بیٹیوں کی عزت کی راکھی بھی اسکے زمہ ہے
دولت جیت گئی
انصاف ہار گیا
اثررسوخ جیت گیا
ایک باپ ہار گیا
میں یہاں بےبسی کی تصویر بنی بہت سے شاہزیب اور شاہ رخ دیکھ رہی ہوں, جو میرے سینے میں آگ تو لگاتے ہیں مگر مجھے اپنی اس جلن کو ختم کرنے کیلئے پھاہا نظر نہیں آتا
سانحہ ماڈل ٹاؤن
سانحہ قصور
معصوم بچیوں کے ریپ اور پھر قتل سب حکومت کی تحقیقاتی کمیشن کی نظر ہو گئے
اور حنوظ ہو رہے ہیں
میں تقریباً روزانہ ایک ظلم ہوتے دیکھ سکتی ہوں اور انصاف مہیا کرنے کیلئے ایک کمیشن  بنتے بھی..
یہ کمیشن صرف مجرموں کو تحفظ دے سکتا ہے, معصوموں کو انصاف نہیں

میں مایوس ہو گئی ہوں
جب میں دیکھتی ہوں کہ زرداری, نوازشریف الطاف حسین جیسے گِدھ پاکستان کو نوچ کھا رہے ہیں , آزادانہ ہمارے خون پسینے پر عیاشی کر رہے ہیں جبکہ غلامی کی زنجیروں کے اسیر عوام اپنا خون چوسے جانے پر بھی مطمئن ہیں
جس عوام نے ان لیڈران کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے وہ اپنی باگیں ان جونکوں کے ہاتھ تھما کر فخر محسوس کرتی ہیں
میرا دل خون کے آنسو روتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہمارا حاکمِ وقت جو کہ اپنے کالے کرتوتوں کی بِنا پر ساری دنیا میں ننگا ہو چکا ہے
جسکا نام پاناماپیپرز میں سنہری حروف کے ساتھ لکھا گیا ہے
جبکہ دوسری طرف اپنے لیڈر کی اندھی تقلید میں مبتلا عوام اسکو ابھی بھی ریشم و اطلس کے کپڑے پہنا کر اس کا ننگاپن ڈھانپنے کی کوشش میں مصروف
اپنے آنے والے بچوں کے روشن مستقبل کے قاتل بن رہے ہیں

میری مایوسی میں کئی گُنا اضافہ ہو جاتا ہے جب میں ایک اسلامی مملکت میں امن و آتشی کے دین اسلام کو  "جاہل مُلا" کے ہاتھ کھلونا بنا ہوا دیکھتی ہوں
ان اسلام کے ٹھیکداروں کے نزدیک فرقہ واریت پھیلانا, جہاد کے نام پہ قتل وغارت کرنا اسلام کی خدمت ہے, انکا پسندیدہ مشغلہ کُفر کا فتویٰ لگانا ہے
میری روح تک کانپ جاتی ہے جب میں جہالت کی اتھا گہرائیوں میں دھنسے عوام الناس کو اندھا دھند ان جاہل علماء کے پیچھے بھاگتا دیکھتی ہوں

میں محسوس کرتی ہوں کہ ہمیں اس کرپٹ سسٹم، نااَہل قیادتوں, غیر شفاف نظام, غیر مؤثر حکومتوں, جہالت کے گہرے کالے بادلوں کو اک شعاع سے چھانٹنے کیلئے ایک عدد "مارٹن لوُتھر" کی ضرورت ہے

کہاں سے آئے گا وہ مارٹن لوتھر؟
کون بنے گا وہ بارش کا پہلا قطرہ؟
میں نے اپنے سوالوں کا جواب پانے کیلئے اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کا فیصلہ کیا
اور آخرکار گہری مایوسیوں کے درمیان گھرے مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا
"انقلاب دوسروں پہ انگلیاں اٹھانے سے نہیں آتا, جس دن ہم خود انسانی اور اخلاقی رویہ اختیار کریں گے, اس دن پورے ملک میں انقلاب آ جائے گا"
میں سمجھ گئی کہ "مارٹن لوتھر" آپ بھی ہو سکتے ہیں اور میں بھی
ان ظلمتوں کے گہرے بادلوں کو چیرتی ہوئی پہلی "شعاع" آپ بھی ہو سکتے ہیں اور میں بھی

اور میری یہ سوچ اور یقین مجھے مایوسیوں کے بگولوں میں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی

#بِیاعل

Saturday, 16 April 2016

اللّٰہ اکبر

"آہ!!"
"وے پروین! کیا ہوا نی؟"
"اماں درد اٹھا ہے"
"وے کاشی! کاشی وے, جا جلدی سے دائی کو لے کے آ, پینو کو درد اٹھا"
ابھی اسکا وقت تو نہیں آیا پر خورے درد کیوں اٹھا" پروین کی آنکھوں کی روشنی سے معزور ساس خود کلامی کرتے ہوئے

"اماں, 15 دن رہتے ہیں ابھی باقی" دائی اماں کو تسلی دیتی ہے

کاشف ایک غریب خاندان کا سربراہ ہے جس میں اسکی اندھی ماں,بیوی اور دو بچے ہیں,جبکہ ایک کی آمد آمد ہے_
کاشف سارا دن اینٹوں کے بھٹے میں مزدوری کر کے بدقتِ مشکل دو وقت کی روٹی کما پاتا ہے_
پروین, کاشف کی بیوی اسکی مشکل میں اسکی دستِ راست, گھر کا کام نبیڑ کے اپنے خاوند کا ہاتھ بٹانے بھٹے پہ پہنچ جاتی_
پروین کی کمائی اماں کے علاج معالجے میں نکل جاتی ہے_
پروین ایک بہت جازبِ نظر عورت ہے, اسکا نکلتا ہوا قد, بھرا بھرا جسم کسی بھی مرد کو اپنی طرف متوجہ کیئے بغیر نہیں رہتا_
بھٹے کے مالک کی ہوس زدہ آنکھیں پوری طرح پروین پہ گڑی ہیں, طریقے طریقے سے کاشف کو تنگ کرتا ہے پروین کا سودا کرنے کیلئے پرکاشف مالی طور پہ غریب ضرور ہے مگر غیرت کی دولت سے مالا مال ہے_

مالک کسی بھنائے ہوئے سانپ کی مانند دن رات غریب میاں بیوی سے بدلا لینے کی ترکیبیں سوچ رہا ہے کہ ایک دن اسکا عیار منشی بالآخر ایک زہریلی سازش تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے_
"اماں میں کاشف کے پیچھے جا رہی ہوں بھٹے پہ"
"وے پینو! دماغ تے ٹھیک ہے, ابھی جو درد اٹھا تھا وہ؟ بچے نوں کوئی نقصان نہ ہووے, رہن دے توں"
"اماں, تجھے پتہ ہے اگے پیسے کی ضرورت ہووے گی بچے واسطے, کاشف کلا کیسے کمائے اتنا؟"
"اچھا جا جا! میں اندھی تو کسے جوگی نہیں کہ کوئی مدد ہی کر دیواں"
پروین اماں کی بھرائی ہوئی آنکھوں کو تاسف سے دیکھتے ہوئے باہر نکل جاتی ہے

بھٹے پہ دور اسے بھیڑ نظر آتی ہے, یکدم اسکا دل تیزی سے دھڑک اٹھتا ہے, تھوڑا آگے جاتی ہے تو اسکو کاشف نظر آتا ہے بھیڑ کے بیچوں بیچ مجرموں کی طرح گھگیاتا ہوا

پینو مجمع چیڑتی ہوئی کاشف کے پاس پہنچتی ہے, یکدم منشی چِلا اٹھتا ہے" یہ بھی برابر کی مجرم ہے, ان دونوں میاں بیوی نے ہمارے نبی(ص) کی شان میں نازیبا باتیں کیں, انہیں گالیاں بکیں(نعوزباللّٰہ)

ہجوم غصے سے بےقابو ہوا جاتا ہے, مالک دور کھڑا اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا ہے_ میاں بیوی گڑگڑا رہے ہیں, "ہم بےقصور ہیں,تمہارے نبی کا زکر ہماری بائیبل میں بھی ہے, ہم بھلا کیسے انکی شان میں گستاخی کر سکتے ہیں"
دونوں رو رہے ہیں, چِلا رہے ہیں, پینو کو دردیں لگ گئی ہیں پریشانی سے
اسکی دلدوز فریاد بھی جنونی مسلمانوں پہ اثر نہ کر سکی
وہ عشقِ رسول کے جذبے سے اس قدر مامور ہیں کہ انکے جنون نے مظلوم جوڑے سےصفائی دینےکا حق بھی چھین لیا ہے_
ہجوم عیسائی جوڑے کو بھٹی کی طرف گھسیٹ لے جا رہا ہے, پینو کی دردوں میں شدت آ گئی ہے, کاشف نبی پاک کے واسطے دے رہا ہے_
اور پھر دو روح کو جھنجھوڑتی چیخیں, بچے کی رونے کی آواز,کسی اژدھے کی طرح منہ کھولے بھٹی کی گہرائیوں سے بلند ہوتی عرش کو ہلا دیتی ہے_
منشی کی شیطانی مسکراہٹ, مالک کی آنکھوں سے چھلکتا ہوا اطمنان, اندھی ماں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں حقیقت بیان کرنے کو کافی ہیں مگر کون غور کرے؟
ہجوم تو اللّٰہ اکبر, یا رسول اللّٰہ کے نعرے لگانے میں مصروف ہے

#بِیاعلی

Twitter: @biyaali57

جوار بھاٹا

میں ایک عورت ہوں,
ہاں, میں ایک گھٹے ہوئے معاشرے کی گھٹی ہوئی عورت ہوں_
مجھے پروان چڑھاتے وقت یہ باور نہیں کرایا گیا کہ عورت کا دل نہیں ہوتا, وہ ایسے جزبات سے عاری ہےجن میں کبھی بھی جوار بھاٹا اٹھ سکتا_ایسے جزبات صرف ہمارے معاشرے کے مرد کی میراث ہے_
آج میرے ہاتھ مِینا کی ڈائری لگ گئی جو کہ ہمیشہ تالے میں رکھتی ہے مگر آج بھول گئی_
"کسی کی ڈائری پڑھنا غیر اخلاقی حرکت ہے" اپنے ضعمیر کی آواز کو دباتے ہوئے میں آگے پڑھنے لگی_

"میں کہ ایک معصوم, معاشرے کی کج روی اور منفی سوچ سے مکمل طور پہ نابلد عورت جس کو کوئی مرد پسند تو آ سکتا مگر اسکا اظہار کرنا اسکے لیئے گناہ کبیرہ قرار دے دیا جاتا_
جسکو اسکی مرضی پوچھے بنا,   اس قول کے ساتھ "اب اُس گھر سے تمہاری لاش ہی نکلے" اگلے گھر کے کونٹھے سے باندھ دیا جاتا ہے اس بات سے قطع نظر چاہے وہ وہاں روز جیئے, روز مرے_
میں نے بھی اپنے احساسات اورجزبات کو گہری نیند سلا دیا یہ جاننے کے بعد کہ یہاں شادی سے پہلے یا شادی کے بعد جزبات رکھنے کا حق صرف مرد کو ہے, میں اپنے گھر کو جنت بنانے میں جت گئی, شاید صرف اسی لیئے میری تخلیق کی گئی_

اچانک مجھے اپنے جزبات میں تبدیلی محسوس ہونے لگی,
مجھے کوئی اچھا لگنے لگا, میں کسی کے قریب ہونے لگی, یکطرفہ عشق میں مبتلا ہونے لگی
یا اللّٰہ ایسا کیسے ہو سکتا؟ میرے بچے میرے سر کا سائیں میری جنت ہیں,
اللّٰہ جی نادانستہ مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا اپنی جنت کے ہوتے کسی غیر مرد کا خیال؟

اور میں آہستہ آہستہ گھلنے لگی, میری سانس گھٹنے لگی_ خود سے لڑنے لگی,یہ روزانہ کی جنگ مجھے تھکانے لگی_
ہاں میں تھک گئی ہوں, بہت تھک گئی ہوں_
یہ جانتے ہوئےبھی کہ میں بھی ایک انسان ہوں جس نے ہمیشہ اپنے احساسات پہ پہرا رکھے رکھا,میں جان گئی تھی کہ یہاں اظہار کا حق صرف مرد کو ہے اور عورت کی ایسی غلطی اسکو "وحشیہ" کا خطاب بخش جاتی ہے_

اللّٰہ جی!
سُن, میرے اللّٰہ جی!
میں وحشیہ نہیں"

مِینا کی ڈائری کے یہ اوراق مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر گئے_
بہتی آنکھوں کے ساتھ بلا ارادہ میرے منہ سے نکلا
" آخر کبھی تو جوار بھاٹا پھوٹنا ہی تھا"
#بِیاعلی

Twitter: @biyaali57

میں

میں کون ہوں؟؟
میں ایک عورت ہوں
میں ایک بیٹی ہوں
میں ایک بہن ہوں
میں ایک بیوی ہوں
میں ایک بہو ہوں
میں ایک ماں ہوں

ہاں ہاں, میں یہ سب ہوں پر ان سب میں "میں" کون ہوں, "میں" کہاں ہوں؟

میری اپنی "ذات" کیا ہے ان سب رشتوں میں؟

میں ایک "بیٹی" ہوں جو اپنے باپ کی پگڑی اونچی رکھنے کے چکر میں اپنی جائز خواہشات کو بھی دبا دیتی ہے
میں ایک "بہن" ہوں جس کے بھائی کو تو اس معاشرہ میں سات خون معاف ہیں پر میری چھوٹی سی غلطی بھی اسکی عزت پہ کلنک کا ٹیکا ثابت ہو گی
میں ایک "بیوی" ہوں جسے اپنے شوہر کی تمام زیادتیوں کے باوجود اسے اپنا مجازی خدا ماننا ہے, اس تعفن زدہ معاشرے میں مقام پانے کیلئے اسکی عبادت کرنی ہے
میں ایک "بہو" ہوں جسکے سر پہ نہ صرف اسکے شوہر اور بچوں کی زمہ داریاں ہیں بلکہ اسے اپنے سسرال کی ملازمت بھی کرنی ہے, جس کو یہ بارہا باور کرایا گیا ہے کہ چاہے تم گھٹتی رہو پر تمہارا جنازہ تمہارے سسرال سے ہی نکلے گا
میں ایک ماں ہوں, میرے پیروں تلے جنت ہے_ مجھ پہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی بہت بڑی زمہ داری ہے, مجھے انکو نہ صرف بُرائیوں سے بچانا ہے بلکہ ان میں اعتماد کی قوت بھی بھرنا ہے تاکہ وہ اس دنیا کی گرم سرد سے مقابلہ کر سکیں
پر اتنے سارے پیارے رشتوں کے باوجود مجھے اپنا آپ خالی خالی کیوں لگتا ہے؟؟
پھر ایسا کیوں ہے کہ میری اتنی کاوشوں کے بعد بھی
میرے بچوں میں اس دنیا کی نظروں میں نظریں ڈال کے مقابلہ کرنے کی طاقت نہ آ سکی؟
وہ ڈرے سہمے کیوں ہیں؟
 مجھے اپنے شوہر, اس معاشرے سے یہ طعنہ کیوں ملتا ہے کہ میں نے بچوں کی اچھی پرورش نہیں کی؟
آخر میں نے کہاں اور کیسے غلطی کر دی؟؟
 شاید ایسا اسلیئے کہ ان سب رشتوں میں "میں" کہیں بھی نہیں ہوں
شاید اسلیئے کہ میں نے اپنی ذات کو پہچانا ہی نہیں یا مجھے پہچاننے ہی نہیں دیا گیا
شاید اسلیئے کہ میرے پیدا ہوتے ہی میری مستقبل کی کتاب میں یہ زمہ داریاں رقم کر دی گئیں تھیں جبکہ میری کتاب میں سے "میں" کا پرچہ پھاڑ دیا گیا تھا

کیا انسان میں خوداعتمادی اس صورت میں ہی نہیں آتی جب  وہ اپنے آپ کو جان جائے, اسے اپنی قیمت کا اندازہ ہو جائے؟

پھر میں اپنے بچوں کی مجرم کیوں ٹہرائی جارہی ہوں جبکہ
میری "میں" کی تو پہچان ہی نہیں ہوئی؟

#بِیاعلی

Twitter: @biyaali57


بلا عنوان

"کوئی کام مِلا؟"
"نہیں"
"اب کیا ہو گا؟ بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کا وقت آ گیا, پپو کی دو مہینے کی فیس نہیں گئی, راشن بھی صرف اکو دن کا ہی رہ گیا"

" اللّٰہ مالک ہے بھلیئے لوکے, کوشش تو کر رہیا, روزگار پیکج واسطے بھی درخواست دے دی ہے_ امید تو ہے کہ شنوائی ہو جاوے گی"
"اللّٰہ کرے پپو کے ابا"

نزیرا پاکستان میں غربت کی چکی میں پِسنے والا ایک عام انسان ہے
دو بچوں کا باپ!
ایک جوانی کی دھلیز پار کرتی بیٹی،
دوسرا آنکھوں میں تابناک مستقبل کے خواب سجائے بیٹا
اور ان دونوں کی خوشحال زندگی کے لئے دستِ دعا پھیلائے ہوئے نزیر اور اسکی گھر والی شمیم

نزیرے کے باپ نے بھی اپنے پُتر کیلئے آنکھوں میں سپنے سجائے تھے, محنت مزدوری کر کے نزیرے کو پڑھایا لکھایا_

نزیر ایک قابل طالب علم تھا, اپنے باپ کی خواہش "پڑھا لکھا افسر" کو پورا کرنے کیلئے دن رات ایک کرنے والا طالب علم,
اور جو چودہ جماعتیں اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا

بھولا باپ سمجھا کہ اسکا خواب پورا ہو گیا, وہ بھلا کیا جانتا کہ اسکے وطن میں اچھی زندگی کے خواب زیادہ تر خواب ہی رہ جاتے ہیں

آخرکار نزیر جوتیاں گھسانے کے بعد ایک سرکاری اسکول میں چپڑاسی کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا
جبکہ اسکا غریب باپ بیٹے کو کرسی میز کے پیچھے بیٹھا دیکھنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند گیا

نزیر کی زندگی کی گاڑی گھسٹتی رہی,شادی اور پھر دو بچے نزیرے کی زندگی کا رخ موڑ گئے

اپنے باپ کی طرح نزیرے سے بھی بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی, ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے اپنی بیٹی کیلئے "شہزادے" اور بیٹے کیلئے "کرسی میز" کی خوش فہمی پالنے کی غلطی..

"حکومت کا اداروں کی نجکاری کا فیصلہ"
یہ خبر جیسے تیسے زندگی کی گاڑی گھسیٹتے نزیرے پر قیامت کی مانند گِری
اور وہ ہی ہوا جسکا ڈر تھا, اسکے سکول کی بھی نجکاری ہو گئی, نزیر کی نوکری بھی ہاتھ سے گئی_اسکول کے خریدار نے سفارش پر نیا عملہ تعنیات کر لیا
ایک مرتبہ پھر نزیرے کی جوتیاں گھسنیں لگیں مگر اب کے اس میں جوانی والا جوش و ولولہ کہاں سے آتا؟ زمانے کی گرم سرد سے لڑتے لڑتے نزیرے کا دم خم دھندھلا چکا تھا

"ابا بہت بھوک لگی ہے"
یہ الفاظ تھے کہ پگھلا ہوا سیسہ جو نزیر کے کانوں میں پپو نے انڈیلے

عادت کے مطابق میں ناشتے کے ساتھ اخبار کا مطالعہ کر رہی ہوں, اچانک میری نظروں کے سامنے یہ خبر لہرا گئی
"ملتان: محمد نزیر نامی شخص نے بھوک اور غربت سے تنگ آ کر اپنے بیوی بچوں کو مار کر  خودکشی کر لی"

میری تواتر سے برستی آنکھیں اس خبر پہ جم گئیں,ایک سوال ہتھوڑے کی مانند میرے ذہن پہ برسنے لگا "محمد نزیر  نے اپنے خاندان اور خود کو کس سے مُکتی دلوائی؟
اس دنیا سے
یا
اس کرپٹ, بےضعمیر, بےحس حکومتی اشرافیہ اور انکے رائج کردہ سسٹم سے؟"

#بِیاعلی

Twitter: @biyaali57


طوائف

"آآآہ"
مہرجہاں درد سے کراہتے ہوئے,
دردِزدہ کی تکلیف برداشت کرتے اسکے نیلے پڑتے ہونٹوں سے سرگوشیاں ابھر رہی ہیں
"اے میرے پروردگار, مجھے بیٹا دے"
جبکہ دوسرے کمرے میں اسکا شوہر اور باپ ہاتھ بلند کیئے اللّٰہ سے بیٹی مانگ رہے ہیں
چاند چہرے جیسی بیٹی
حیران ہو گئے نا؟
یہ تو سب الٹ نہیں ہو گیا؟

جب مہرجہاں نے اس دنیا میں قدم رکھا تو اسکے باپ نور بخش نے اسکی ماں زرینہ کو بہت مارا اس بات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے کہ زرینہ کچھ لمحے پہلے ہی ولادت جیسی جان لیوا کسوٹی سے گزری ہے
نور بخش کو بیٹا چاہیئے تھا

وقت گزرتا گیا, مہرجہاں جیسے تیسے جوانی کی منزل کو پہنچ گئی, اسکے گڑیوں سے کھیلنے کے دن اس سے بےدردی سے چھین لیئے گئے
اسکےبچپن کے وہ قیمتی پل اپنی ماں کےساتھ دوسروں کے جوٹھے برتن مانجھنے میں گزر
گئے
ماہ و سال گزرنے لگے, مہرجہاں نے سولہویں سال میں قدم رکھ لیا..
نئی امنگیں نئی خواہشیں  مہرجہاں کے اندر سر ابھارنے لگیں,اسکا بننے سنورنے کو دل چاہنے لگا
اپنی گِنی چُنی سہیلیوں سے سنی کہانیاں اسکے کچے ذہن میں گونجنے لگیں اور اس معصوم نے ایک گھبرو جوان کا تخیل اپنے ذہن میں سجا لیا
ایک دن اسی جذبے کے تحت اس نے نہا دھو کے, اپنی مالکن سے مِلا جوڑا زیب تن کیا اپنے لمبے گھنے بالوں کی چوٹی بنائی اور مالکن کی بیٹی کی دان کی ہوئی سُرخی ہونٹوں پہ سجائی
اسکی ماں بیٹی کو اس روپ میں نظر بھر کے دیکھنے سے بھی گریزاں تھی کہ کہیں بیٹی کو نظر نہ لگ جائے اور گھبرائی ہوئی بھی کہ اسکے باپ نے دیکھ لیا تو بیٹی کو دھُن کے رکھ دے گا
کیا اٹھان تھی مہرجہاں کی, یہ لمبا قد کسی ناگن کیطرح بل کھاتی کالی گھنی چوٹی, کھِلتا ہوا گندمی رنگ, ستواں ناک جس پہ ایک کِیل سجا ہوا تھا بھرے بھرے ہونٹ اور اسکے اوپر اسکی نظر اتارتا ایک کالا تِل

اپنے خوابوں میں مگن مہرجہاں کو معلوم ہی نہیں پڑا کہ کب اسکا باپ گھر کے اندر داخل ہوا اور کب سے اسکے سر پہ کھڑا گہری سوچ میں ڈوبا اسے گھوری جا رہا ہے
خوف سے کانپتی ماں کی حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب محمد بخش ایک لفظ منہ سے نکالے بنا ایک گہری سوچ چہرے پہ لیئے گھر سے باہر نکل گیا
ایک آدھ گھنٹے بعد محمد بخش بمعہ ایک گھاک صورت عورت اور ایک مشہور بدمعاش طیفے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا
یہ دیکھ کے ماں کا دل مانو اچھل کے منہ کو آ گیا
اسکا ماتھا ٹھنکا
"میں مہرجہاں کا ویاہ طیفے کے ساتھ کر رہا ہوں, مولوی صاحب اور گواہ بھی آتے ہی ہونگے بس"
مہرجہاں اور ماں کے کانوں  کے پاس جیسے کسی نے بم پھوڑا
ماں نے خاوند کے سامنے رونا اور گڑگڑانا شروع کر دیا, طیفے نے اسے چوٹی سے پکڑ کے گھسیٹتے ہوئے دوسرے کمرے میں بند کر دیا جبکہ مہرجہاں ہنوز سکتے کے عالم میں جوں کی توں بُت بنی کھڑی رہی
جیسے اسکے حواس کسی نے چھین لیئے ہوں
نکاح شروع ہو گیا, ماں دروازہ پیٹتی دھائیاں دیتی رہی, مہرجہاں ایک زندہ لاش کیطرح اشاروں پہ ناچتی رہی

 قیامتِ کُبریٰ تو مہرجہاں پہ تب ٹوٹی جب وہ رخصت ہو کے اپنے سسرال پہنچی
تبلے کی تھاپ پہ تھڑکتے گنگرو  پہنے پاؤں
جابجا کھڑکیوں سے حسرت و یاس کی تصویر بنی جھانکتی ہوئی بنتِ حوا
مہرجہاں کو اسکی منزل کا پتہ دینے کیلئے کافی تھیں_

"آآآہ"
مہرجہاں کی آہ میں کیا کیا نہیں تھا
کرب, اذیت, دکھ تکلیف
"بس بٹیا برداشت کرو دو منٹ اور"
"اماں, تجھے اللّٰہ کا واسطہ دعا  کرو مجھے بیٹا ہو"
دائی نے کچھ خوف اور کچھ حیرت سے مہرو کی طرف دیکھا کہ وہ جانتی تھی کہ ایک "کوٹھے" میں بیٹے کی پیدائش کا نتیجہ کتنا گھناؤنا ہو سکتا ہے
جبکہ مہرجہاں کے ذہن میں اسکے ماضی کا وہ تاریک دن گھوم رہا تھا جب اسکے نام نہاد خاوند نےاسے بنا سنوار کے ایک سیٹھ کے سامنے پیش کیا تھا پانچ ہزار کے عوض,اسکے ذہن میں روتی بِلکتی مہرجہاں کی فلم چل رہی تھی جو اپنے شوہر سے رحم کی بھیک مانگتے مانگتے ایک دم خاموش ہو گئی تھی
"حرامزادی, نخرے دکھاتی ہے؟
تیرے باپ نے اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے تجھے بیچا ہے ایک لاکھ میں, اب وہ ایک لاکھ تیرا باپ پورا کرے گا کیا؟"
اور مہرجہاں یکدم چپ کر گئی, اسکی زبان ہمیشہ کیلئے تالو سے لگ گئی

"اُوایں اُوایں"
مہرو کی سانس جیسے گلے میں ہی کہیں اٹک گئی
"مہرجہاں, مہرجہاں وے کرماں جلی, غضب ہو گیا تیرے بیٹا ہوا ہے" دائی نے پیلے پڑتے رنگ اور کانپتی آواز سے مہرو کو خبر سنائی, طیفے کے غصے کا سوچ کے ہی اس کی روح فنا ہو رہی تھی
دائی نے تاسف بھری نگاہ مہرجہاں پہ ڈالی پر اسکی آنکھوں نے ایک عجیب ہی منظر دیکھا مہرجہاں کے چہرے پہ پریشانی اور خوف کی رمک تک نہیں تھی سکون اور اطمنان اس کے چہرے سے چھلک رہا تھا, اسکے نیلے پڑے ہونٹوں پہ گلابی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور وہ بُڑبڑا رہی تھی
"میرے مولا تیرا شکر, ایک طوائف پیدا ہونے سے بچ گئی"
#بِیاعلی


Twitter: @biyaali57